بین الاقوامیعرب دنیا

اسرائیل کی ایران پر جنگ: کیا یہ نیتن یاہو کی سیاسی بقا کے لیے سہارا ہے؟

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایران پر فضائی حملے ایک ایسے وقت میں شروع کیے جب وہ خود بدعنوانی اور رشوت کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے اور ان کی حکومت پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے بمشکل بچی تھی۔

نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت بدعنوانی، معاشی مسائل اور غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی میں ناکامی کی وجہ سے کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایران کے خلاف جنگ نے انہیں وقتی سیاسی ریلیف فراہم کیا ہے۔

اسرائیلی حملوں کے چند دنوں میں ایران کے جوہری اور عسکری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا، سینئر فوجی شخصیات کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں عام شہری مارے گئے۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ تہران کے شہریوں کو اجتماعی سزا دی جائے گی، جس سے اسرائیل کی تباہ کن نیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایران نے بھی جوابی حملے کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب سفارتی حل تقریباً ناممکن نظر آتا ہے، جب تک دونوں ملکوں کی موجودہ حکومتیں قائم ہیں۔

اسرائیل اس جنگ کو ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، حالانکہ اس بات کے شواہد نہیں کہ ایران ایٹم بم بنانے کے قریب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ نیتن یاہو کی ذاتی سیاسی بقا کے لیے زیادہ ہے۔ اسی طرح جیسے غزہ اور لبنان میں جنگوں کے ذریعے نیتن یاہو نے عوام کو بیرونی دشمن کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی، ویسے ہی ایران کے خلاف جنگ بھی ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی کے بعد ان کی جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، لیکن غزہ اور لبنان میں کامیابی نہ ملنے پر اب ایران کو اگلا ہدف بنایا گیا ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت پہلے ہی اندرونی اختلافات کا شکار ہے—سیکولر اور مذہبی، قوم پرست اور ٹیکنوکریٹ گروپوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اسرائیلی معاشرے میں خانہ جنگی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا، لیکن بیرونی دشمن کے خلاف جنگ نے وقتی طور پر قوم کو متحد کر دیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی نیتن یاہو کو فائدہ ہوا ہے۔ اگرچہ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں اور مغربی ممالک پر اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف دباؤ ہے، پھر بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہے۔ اس دوران ایران پر توجہ مرکوز ہونے سے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں سے توجہ ہٹ گئی ہے، جہاں اب بھی بمباری اور محاصرہ جاری ہے۔

امریکہ میں سابق صدر ٹرمپ نے اگرچہ ایران کے ساتھ مذاکرات اور یمنی حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی کی بات کی، لیکن وہ بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نیتن یاہو کو امید ہے کہ اگر ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھی تو ٹرمپ بھی اسرائیل کے ساتھ ہوں گے۔ اس سب کے باوجود، نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت اسرائیل کو عالمی سطح پر مزید تنہائی اور معاشی مشکلات کی طرف لے جا رہی ہے۔ غزہ کی جنگ نے اسرائیل کی معیشت کو 10 فیصد تک نقصان پہنچایا اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی کوئی حکومت خطرہ محسوس کرتی ہے تو وہ بیرونی دشمنوں پر حملے کر کے اپنی بقا کی کوشش کرتی ہے۔ نیتن یاہو بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ جب تک بین الاقوامی دباؤ نہ بڑھے، وہ جنگ جاری رکھیں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جنگ رکنے کی صورت میں ان کے خلاف مقدمات اور سیاسی مشکلات دوبارہ سر اٹھا سکتی ہیں۔ اگر امریکہ یا دیگر طاقتیں جنگ بندی اور احتساب پر زور دیں تو خطے میں استحکام آ سکتا ہے، ورنہ نیتن یاہو کی حکمت عملی پورے خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتی ہے، جس کا نقصان خود اسرائیل کو بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button