بین الاقوامیعرب دنیا

اسلامی ممالک کا اتحاد: حقیقت یا خواب؟

سنہ 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والی او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کی کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مسلمانوں کے اتحاد کی امید ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ پاکستان کے پاس وسائل محدود ہیں، مگر وہ اسلام کے لیے خون کا ایک قطرہ بھی دینے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اُس وقت اسلامی دنیا نسبتاً متحد تھی – نہ ایران میں انقلاب آیا تھا، نہ صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تھا، اور نہ ہی کسی اسلامی ملک نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔

لیکن آج، 51 سال بعد، صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ کئی عرب ممالک جیسے مصر، اردن، یو اے ای، بحرین، مراکش اور سوڈان اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ترکی کے اسرائیل سے پرانے سفارتی تعلقات ہیں، اور اس نے خود بھی اسرائیل کا دورہ کیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی جاری ہے، جبکہ اسلامی دنیا مجموعی طور پر تقسیم کا شکار ہے۔

مسلم اتحاد کی بات کرنا سب سے آسان بات ہے، خاص طور پر اسرائیل کے خلاف، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ شیعہ سنی فرقہ واریت، ایران کے انقلابی نظریات اور سعودی عرب کی بادشاہت ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ آذربائیجان، جو ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، ایران سے زیادہ اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔

جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ایران نے مخالفت نہیں کی، بلکہ خاموشی اختیار کی، کیونکہ صدام حسین ایران کا دشمن تھا۔ اسی سال (1979) مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا، بعد میں اردن، اور حالیہ برسوں میں خلیجی ممالک نے بھی یہی قدم اٹھایا۔ امریکہ کی خلیج میں مضبوط فوجی موجودگی ہے، اور ان فوجی اڈوں پر میزبان ممالک کا اختیار نہیں ہوتا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلم ممالک کی پالیسیوں کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ جغرافیائی، سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات ہوتے ہیں۔ تلمیز احمد، بھارت کے سابق سفیر، کے مطابق اسلامی اتحاد کی بات جذباتی ہے، مگر عملی طور پر بے معنی ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق ایران اور اسرائیل کی لڑائی اسلامی جنگ نہیں بلکہ طاقت، اثر و رسوخ اور علاقائی قیادت کی جنگ ہے۔

اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیمیں جیسے او آئی سی اور عرب لیگ محض نمائشی ادارے رہ گئی ہیں جن کے پاس عملی اثرورسوخ نہیں۔ ترکی بھی مسلم قیادت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اس کے اقدامات اکثر امریکہ نواز ہوتے ہیں، جیسا کہ عراق پر امریکی حملے میں اس کا غیرمستقیم تعاون۔

آج اگر ایران اور اسرائیل کی جنگ شدت اختیار کرتی ہے اور ایران شکست کھاتا ہے، تو اس کے کئی عالمی اثرات ہوں گے۔ اسرائیل کا اثر مزید بڑھے گا، فلسطینیوں کی مزاحمت کمزور ہو گی، اور ایران کے حمایتی گروہ مزید کمزور ہوں گے۔ روس اور چین کا اثر بھی اس خطے میں گھٹ جائے گا۔

نتیجتاً، مذہب کی بنیاد پر مسلم ممالک کا اسرائیل کے خلاف متحد ہونا نہ صرف مشکل بلکہ عملی طور پر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ خلیجی ریاستیں ایران اور اسرائیل دونوں سے خوفزدہ ہیں اور امریکہ پر انحصار کرتی ہیں۔ ایسے میں ایران کے خلاف کوئی فیصلہ کن جنگ ہوئی تو اسلامی دنیا کے اندرونی اختلافات اور کمزوری مزید کھل کر سامنے آئیں گے۔

نتیجہ:
اسلامی دنیا کا اتحاد ایک خوبصورت خواب ضرور ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، معاشی، اسٹریٹجک اور فرقہ وارانہ اختلافات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر قریب نظر نہیں آتی۔ اسلام کے نام پر نعرے تو بلند ہوتے ہیں، مگر عملی اتحاد وقت کی سب سے بڑی کمی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button