نیپال میں عبوری حکومت کا بحران، کٹھمنڈو میں سپریم کورٹ اور بازار دوبارہ کھلنے لگے

نیپال میں عبوری حکومت کے قیام پر اختلافات بدستور برقرار ہیں جس کے باعث سیاسی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ سابق وزیراعظم کے پی شرما اولی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ’جنریشن زی‘ مظاہروں نے شدت اختیار کر لی تھی، جن میں اب تک 34 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ آف نیپال اور کٹھمنڈو کی کئی بینکیں شدید نقصان کے بعد مرحلہ وار دوبارہ کھل رہی ہیں۔ کرفیو میں نرمی کے بعد بازار بھی کچھ وقت کے لیے کھولے گئے تاہم پبلک ٹرانسپورٹ تاحال معطل ہے اور فوج نے نئی پابندیاں نافذ کر دی ہیں۔
عبوری وزیرِاعظم کے انتخاب پر اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ مظاہرین کا ایک گروپ نیپال الیکٹرسٹی اتھارٹی کے سابق سربراہ کُلمان گھِسنگ کو آگے لانا چاہتا ہے، جبکہ دوسرا گروپ سابق چیف جسٹس سشلا کارکی کی حمایت کر رہا ہے۔ صدر رام چندر پاؤڈیل نے واضح کیا ہے کہ کوئی بھی حل موجودہ آئین کے دائرے میں رہ کر ہی نکالا جائے گا۔ تاہم نیپال کے آئین کے مطابق ریٹائرڈ جج کسی بھی سیاسی یا آئینی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتے، جس سے کارکی کی امیدواری پر سوال اٹھ گیا ہے۔
یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی تھی، جسے بعد میں ہٹا لیا گیا، مگر بدعنوانی، معاشی مشکلات اور بے روزگاری کے باعث عوامی غصہ برقرار ہے۔ نوجوان مظاہرین نے کئی سرکاری عمارتوں اور رہنماؤں کے گھروں کو آگ لگا دی، جس سے سیاسی تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔