نیپال میں نوجوانوں کی تحریک سے وزیر اعظم مستعفی، 19 جانوں کا نقصان، اب آگے کیا؟

کٹھمنڈو: نیپال میں نوجوانوں کی تحریک نے ملک کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ تحریک ابتدا میں انصاف کے پُرامن مطالبے کے طور پر شروع ہوئی تھی، مگر حکومت کے جابرانہ رویے کے بعد حالات قابو سے باہر ہو گئے۔
8 ستمبر کی رات نیپال کی تاریخ کی سیاہ ترین رات ثابت ہوئی۔ ایک پُرامن ریلی پر گولی چلائی گئی جس میں 19 نوجوان جاں بحق اور 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں اسکول اور کالج کے طلبہ بھی شامل تھے۔ اس واقعے نے پورے ملک کو غم اور غصے میں مبتلا کر دیا۔
اگلے ہی دن نوجوانوں نے کرفیو کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کیا۔ دباؤ بڑھنے کے نتیجے میں کئی وزرا نے استعفیٰ دے دیا اور بالآخر 9 ستمبر کو وزیراعظم کے پی شرما اولی بھی عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اب فوج نے سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور فوجی سربراہ نے مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
اس دوران عوامی غصہ بڑھتا گیا۔ مشتعل ہجوم نے سابق وزیراعظم شیر بہادر دیوبا اور وزیر خارجہ ارزو رانا دیوبا کے گھروں پر حملہ کیا۔ وہاں سے نکلنے والی دولت کو عوام نے سڑک پر پھینک دیا جو بدعنوانی کے خلاف ایک علامتی احتجاج تھا۔
نیپال ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یا تو یہ ملک پرانے بدعنوان ڈھانچے کے ساتھ چلے گا یا پھر نوجوانوں کی قربانی ایک نئے اور بہتر مستقبل کی بنیاد رکھے گی۔