ایران نے امریکہ سے جوہری مذاکرات کی پیشکش مسترد کردی

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح کردیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ براہِ راست جوہری مذاکرات ایران کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پہلے ہی مذاکرات کا نتیجہ طے کرچکا ہے جو دراصل ایک دباؤ اور مسلط کرنے کی کوشش ہے، نہ کہ مذاکرات۔
خامنہ ای کی اس پالیسی نے ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کی امریکہ سے ممکنہ سفارتی کوششوں کو بھی محدود کردیا ہے۔ صدر اس وقت نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
یورپی ممالک نے واضح کیا کہ ایران کو لازمی طور پر:
- امریکہ سے براہِ راست مذاکرات بحال کرنے,
- جوہری تنصیبات میں عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دینے,
- اور یورینیم کی افزودگی پر وضاحت پیش کرنے جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔
فی الوقت ایران کے پاس 400 کلوگرام سے زائد افزودہ یورینیم موجود ہے جس کی سطح 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو بم بنانے کے قریب ترین حد ہے۔
اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو اتوار کو پابندیاں ازخود دوبارہ لاگو ہو جائیں گی۔ ان میں ایران کے اثاثے منجمد کرنا، ہتھیاروں کے سودے روکنا اور میزائل پروگرام پر پابندی شامل ہے۔
خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ تنقید صرف امریکہ پر ہے، یورپ پر نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن ہے اور تہران کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔