نیمشا پریا کی سزائے موت ختم نہیں ہوئی: پارلیمنٹ میں وزارت خارجہ کا دوٹوک بیان

بھارت کی وزارت خارجہ کے ذرائع نے منگل کے روز اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے جس میں ’’گرینڈ مفتی آف انڈیا‘‘ کانتھاپورم اے پی ابو بکر مسلیار نے کہا تھا کہ یمن میں بھارتی نژاد نرس نیمشا پریا کی سزائے موت مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ ’’نیمشا پریا سے متعلق جو اطلاعات کچھ افراد کی جانب سے شیئر کی جا رہی ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔‘‘
گرینڈ مفتی نے پیر کو ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ نیمشا پریا کی سزائے موت منسوخ کر دی گئی ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یمنی حکام کی جانب سے انہیں تحریری طور پر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
نیمشا پریا، جو کیرالا سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ نرس ہیں، کو 2017 میں یمنی شہری مہدی کے قتل کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ 2018 میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی، اور ان کی پھانسی 16 جولائی 2025 کو طے کی گئی تھی، جو بعد میں ملتوی کر دی گئی۔
رپورٹس کے مطابق، حالیہ دنوں میں صنعا میں ایک اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی تھی جس میں مفتی کے منتخب کردہ علماء نے یمن کے شمالی حکام اور بین الاقوامی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ گرینڈ مفتی کے دفتر کا دعویٰ تھا کہ ان ملاقاتوں میں نیمشا کے مقدمے سے متعلق کچھ اہم فیصلے کیے گئے، مگر ابھی باضابطہ اعلان باقی ہے۔
نیمشا پریا کیس کیا ہے؟
2017 میں نیمشا نے مبینہ طور پر مہدی کو نشہ آور دوا دی تاکہ اپنا پاسپورٹ واپس لے سکے، مگر مہدی کی موت ہو گئی۔ گھبراہٹ میں انہوں نے لاش کے ٹکڑے کر کے پانی کے ٹینک میں چھپا دیے۔
2018 میں عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی، اور اعلیٰ عدالتوں نے ان کی اپیلیں مسترد کر دیں۔