آخر ایران میں حکومت کی تبدیلی اتنا آسان کیوں نہیں!

تحریر: ادیتی بھدوری (ماخوذ از این ڈی ٹی وی اور دیگر ذرائع)
ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حالیہ حملوں کے بعد دنیا بھر میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ آیا ایرانی عوام اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس سے نجات چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں ایرانی عوام کو حکومت کے خلاف اُبھارنے کی کوشش کی ہے، جس سے "ریجیم چینج” کی عالمی مہم کا تاثر مزید گہرا ہو گیا ہے۔
اس بحث کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے ایرانی عوام اپنی حکومت سے سخت نالاں ہیں۔ حالیہ اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والے ایرانی فوجی کمانڈروں کی ہلاکت پر کچھ ایرانی عوام نے سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کیا۔ نیدرلینڈز کے ادارے GAMAAN کی 2019 کی ایک غیر جانبدار سروے رپورٹ کے مطابق، اگر ایران میں حکومت کے حق میں یا مخالفت میں ایک آزادانہ ریفرنڈم ہو، تو 79 فیصد عوام اسلامی جمہوریہ کے خلاف ووٹ دیں گے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایرانی عوام نے ہر اس موقع پر اپنی حکومت کا ساتھ دیا ہے جب ملک کو بیرونی خطرات کا سامنا ہوا۔ چاہے وہ صدام حسین کی جنگ ہو یا امریکی پابندیاں، ایرانی عوام نے ریاستی پالیسیوں پر تنقید کے باوجود قومی خودمختاری اور سلامتی کو ترجیح دی۔
ایران کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام میں حکومت اور عوام کے تعلقات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ ایک طرف عوام مہنگائی، بے روزگاری، آزادیِ اظہار کی کمی اور مذہبی سخت گیری سے پریشان ہیں، تو دوسری طرف وہ بیرونی مداخلت کو اپنی خودمختاری اور قومی وقار کے خلاف سمجھتے ہیں۔
ایرانی معاشرے میں یہ تقسیم بالکل واضح نہیں کہ کون حکومت کے ساتھ ہے اور کون مخالف۔ حکومت میں بھی مختلف سوچ رکھنے والے عناصر موجود ہیں، اور عوام میں بھی مکمل بغاوت کے جذبات نہیں پائے جاتے۔ یہ سب ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ایران کو صرف ایک سخت گیر حکومت اور مظلوم عوام کے نظریے سے دیکھنا ایک سطحی تجزیہ ہوگا۔
بیرونی طاقتیں اگر واقعی ایران میں مثبت تبدیلی چاہتی ہیں، تو ان کا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ایرانی عوام کے جذبات اور ان کی خودمختاری کا احترام کریں۔ ایران میں کوئی بھی "اسپرنگ” صرف تب ممکن ہوگا جب وہ خود ایرانی عوام کی طرف سے اُبھرے، نہ کہ بیرونی دباؤ یا بمباری کے ذریعے۔