صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین پر نئے ٹیکس (ٹیرِف) لگانے کے اعلان نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی مالی منڈیوں میں زبردست ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اس تجارتی جنگ نے عالمی معیشت کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔
ابتدائی طور پر جب صدر ٹرمپ نے کچھ ممالک کو 90 دن کے لیے ٹیکس سے استثنیٰ دیا تو اسٹاک مارکیٹ میں کچھ دیر کے لیے سکون آیا، لیکن یہ جلد ہی ختم ہو گیا کیونکہ دنیا کی توجہ ایک بار پھر چین کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کی طرف چلی گئی۔
جمعرات کو امریکہ کی بڑی اسٹاک مارکیٹ ایس اینڈ پی میں 3.5 فیصد کی کمی ہوئی، جو فروری میں اپنی بلند ترین سطح سے اب تک تقریباً 15 فیصد گر چکی ہے۔ ایشیائی مارکیٹس نے بھی امریکی منڈیوں کا اثر لیا۔ جاپان کی نکئی انڈیکس میں 4 فیصد کمی دیکھی گئی، جبکہ تائیوان اور ہانگ کانگ میں حالات کچھ بہتر رہے۔
عالمی سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال سے خوفزدہ ہو کر سونے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، جو کہ ہمیشہ سے ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کی قیمت نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ 75 سے زیادہ ممالک امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی دوران وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور ویتنام نے باقاعدہ تجارتی مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ویتنام نے بھی چین سے آنے والی اشیاء کو اپنے راستے سے امریکہ بھیجنے پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے تاکہ ٹرمپ کی طرف سے لگائے گئے ٹیکس سے بچا جا سکے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجارتی کشیدگی جاری رہی تو عالمی کساد بازاری (recession) کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا۔ سرمایہ کاروں، کاروباری افراد اور حکومتوں کے لیے آنے والے دن کافی چیلنجنگ ہو سکتے ہیں۔